ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻏﻮﺭﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ

#Copied 
۔ HUM چینل کے ڈرامے ”پاکیزہ“ میں طلاق کے بعد بیٹی کا بہانہ بنا کر طلاق کو چھپایا گیا اور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں، شادی کے قابل عمر کی ہے۔
۲۔ APLUS کے ڈرامے ”خدا دیکھ رہا ہے“ میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روک کے رکھتا ہے جبکہ بیوی راضی نہیں ہوتی۔
۳۔ ARY کے ڈرامے ”انابیہ“ میں شوہر طلاق کے بعد منکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن گواہ تھیں۔ بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔ شوہر اسے دوبارہ لے جانا چاہتا ہے۔ لڑکی خلع کا کیس دائر کر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطر اسی شخص کے پاس دوبارہ جانے تیار ہو جاتی ہے۔
۴۔ HUM کے ڈرامے ”ذرا یاد کر“ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خود شوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کرکے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے۔ جبکہ باقاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا ناجائزہے۔ اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تو اگر وہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں۔
۵۔ GEO کے ڈرامے ”جورو کے غلام“ میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کو رقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایا تا کہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔
۶۔ HUM کے ڈرامے ”من مائل“ میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے والدین کے گھر جانے کے بجائے اپنے چچا کے گھر ان کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں۔ وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں۔
۷۔ HUM کے ڈرامے ”تمھارے سوا“ میں میں لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے۔ اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیں تو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ لڑکی اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے۔ اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس کی رائے بنانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور پرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے۔ خاص طور پر پاکستان کی۵۰ فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ھے.
ایسے میں ایک پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑمڑور کر پیش کرنا، اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کو اسلام سے دور کرنا اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسہ کو متزلزل کرنا ہے۔
کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی بورڈ ایسا نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک کرے اور اس کی منظوری دے؟
کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جو ان مالکان کو ایڈوائز دے؟
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟ اس پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں؟
کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اسلام اور پاکستان کے خلاف پیش کی جانے والی چیزوں کا نوٹس لے؟
کیا ہمارے چینلز اور ان کے مالکان اپنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہے دکھا دیں۔ کوئی ان کو چیک کرنے والا ۔ روکنے والا نہیں ہے؟ﺑﺎﻗﺎﺋﺪﮦ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﮯ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮬﻮﮞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ Oppo ﻓﻮﻥ ﮐﮯ
ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻗﻤﯿﺺ ﺍﺗﺮﯼ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ fair & lovely ﮐﮯ
ﺍﺷﺘﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺮﯼ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﮧ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺷﺮﻣﻨﺎﮎ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﮧ ﮐﮭﻠﯽ
ﻓﺤﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﺑﺪ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻨﻈﺮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ .
ﭨﯽ ﻭﯼ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﮧ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻑ
ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺑﺎﻗﺎﺋﺪﮦ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﻈﻢ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ
ﮬﻮ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻮﺭ ﮐﺎ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮑﺮ،
ﺑﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻮﺍﺋﮯ ﻓﺮﯾﻨﮉ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ،
ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﻓﺮﺍﮨﻢ
ﮐﺮﻧﺎ،
ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮭﻨﺴﺎﻧﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺟﻨﺲ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ
ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺑﻦ ﺭﮬﮯ ﮨﯿﮟ .
ﺍﻥ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﮧ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮈﺭﺍﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ
ﻧﺌﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺫﮨﻨﯽ ﻧﺸﻮﻧﻤﺎ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮬﮯ ﺟﺲ
ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﮨﯽ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﻧﮑﻠﯿﮟ
ﮔﮯ . ﺍﻥ ﭼﯿﻨﻠﺰ ﮐﻮ ﺍﺏ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﭼﯿﻨﻠﺰ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮨﺎ . ﻣﺬﮨﺒﯽ ﻃﺒﻘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮭﻠﯽ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﭘﮧ
ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﺸﻮﯾﺸﻨﺎﮎ ﮬﮯ . ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﺭ
ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﺭﯾﺎ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﮨﯽ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﺁﭘﮑﻮ ﺍﺱ
ﮐﮭﻠﯽ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ .
ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺐ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯽ
ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ . ﮨﻤﯿﮟ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯﻣﮕﺮ
ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻏﻮﺭﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ..
ﮐﻞ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﭨﮭﺎﺅ ..ﺁﮔﮯ
ﺑﮍﮬﻮ ..ﺳﻮﭼﻮ
ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ...
ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ

Comments