http://www.myquraan.com

Enjoy Islam - Free Islamic resources for every Muslim and non Muslim - quran whit urdu english end poshto audio mp3 islamic images.;;;;;;;;;;;;;;;;.http://www.holyquran.cf

Wednesday, November 26, 2014

MUST SEE AND SHARE! Scientific Facts in the Qur'an - Lying & Sinning

MUST SEE AND SHARE! Scientific Facts in the Qur'an - Lying & Sinning
The Qur'an is not a book of science but a book of signs, yet it contains some undeniable facts related to science.
MUST SEE AND SHARE! Scientific Facts in the Qur'an - Lying & Sinning
The Qur'an is not a book of science but a book of signs, yet it contains some undeniable facts related to science.
There is an incident described in the Qur'an over 1400 years ago about a man called Abu Jahl who was not only an enemy of the Muslims during the time of the prophet Muhammad (saws) but also a well-known pathologica... 

1932ءمیں قدرت نے اس کا کھلا ثبوت ہزاروں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیا۔

کون نہیں جانتا کہ موت کے بعد انسان کا جسم کچھ عرصہ میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے اور سوائے ہڈیوں کے کچھ باقی نہیں رہتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ برگزیدہ ہستیوں کے مبارک اجسام دنیا سے رخصتی کے بعد بھی ہمیشہ تازہ پھولوں کی طرح تروتازہ اور مہکتے رہتے ہیں۔ 
اگرچہ بہت سے لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن 1932ءمیں قدرت نے اس کا کھلا ثبوت ہزاروں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے عیاں کردیا۔ ان دنوں عراق ،شاہ فیصل اول کے زیر حکمرانی تھا اور ایک رات حضرتِ حذیفہ الیمنی رضی اللہ عنہ ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا، اے بادشاہ! جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اور مجھے دجلہ کے کنارے سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر منتقل کرو کیونکہ میری قبر میں پانی بھر چکا ہے جبکہ عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر میں بھی پانی بھررہا ہے۔ شاہ فیصل اول اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس بات پر توجہ نہ دے پائے تو یہی خواب اگلی رات بھی انہیں نظر آیا مگر وہ اپنے کاموں میں مصروف رہے۔
تیسری رات حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ عراق کے مفتی اعظم کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں بادشاہ کو دو راتوں سے ہماری منتقلی کا کہہ رہا ہوں مگر وہ توجہ نہیں دے رہے، آپ ان پر زور دیجئے کہ وہ ہمارے قبور منتقل کرنے کے انتظامات کریں۔ اس کے بعد مفتی اعظم، وزیراعظم اور شاہ فیصل اول کے درمیان ملاقات میں طے پایا کہ مفتی صاحب اس بارے میں فتویٰ جاری فرمائیں گے اور وزےراعظم پریس کو بیان جاری کریں گے تاکہ عوام کو اس کے متعلق خبر ہوجائے۔
ابتدائی طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ 10 ذی الحج کو قبور مبارکہ کی منتقلی کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جائے گا مگر حجاج کرام کی درخواست پر تاریخ 20 ذی الحج مقرر کی گئی تاکہ حج سے فارغ ہونے والے بھی اس اہم موقع پر پہنچ سکیں۔ پھر وہ دن بھی آن پہنچا کہ بغداد شہر کی گلیاں لوگوں سے بھر گئیں اور دور و نزدیک سے آنے والے منتظر تھے کہ کب یہ مبارک فریضہ سرانجام دیا جائے گا۔ بعد از نماز ظہر ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی قبور مبارک کو کھولا گیا تو واقعی ان میں پانی بھرچکا تھا، لیکن ہر دیکھنے والے نے دیکھا کہ ان مقدس ہستیوں کے مبارک جسم ایسے تروتازہ تھے جیسے ابھی چند لمحے پہلے سوئے ہوں اور فضا نہایت خوش کن خوشبو سے معطر تھی۔ اس موقع پر ہر آنکھ فرط جذبات سے اشکبار تھی اور دیکھنے والے حیرت سے دم بخود تھے۔
انہی دیکھنے والوں میں ایک جرمن فزیالوجسٹ بھی تھے جن کے سامنے یہ منظر تھا کہ 1300 سال سے بھی زائد عرصہ قبل دفنائے گئے مبارک جسم زندہ انسانوں سے بھی زیادہ تروتازہ نظر آرہے تھے۔ انہوں نے بے اختیار مفتی اعظم کے ہاتھ تھام لئے اور درخواست کی کہ انہیں مسلمان کیا جائے۔ اس موقع پر بے شمار عیسائی اور یہودی بھی مسلمان ہوئے اور قبول اسلام کا یہ سلسلہ کئی سال تک شدومد سے جاری رہا۔ دجلہ کے کنارے سے دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی قبور کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مزار کے قریب منتقل کردیا گیا جو کہ اس وقت بغداد شہر سے 30 میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔

"یاجوج ماجوج" کے بارے میں کچھ دلچسپ و عجیب جاننا چاہتے ہیں

کیا آپ ہے، لیکن وہ نکلیں گے۔کیسے اور کب ؟ جانئیے ان کے متعلق کچھ دلچسپ و عجیب
"یاجوج ماجوج" کے بارے میں کچھ دلچسپ و عجیب جاننا چاہتے ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے جن کو حضرت ذوالقرنین نے ایک دیوار کے پیچھے قید کردیا ہوا
یاجوج و ماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ انسانی نسل کے دو بڑے وحشی قبیلے گزر چکے ہیں جو اپنے اِرد گرد رہنے والوں پر بہت ظلم اور زیادتیاں کرتے اور انسانی بستیاں تک تاراج کر دیتے تھے۔ قرآن مجید کی آیات، توریت کے مطالب اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شمال مشرقی ایشیا میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں ایشیا کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں مصیبت برپا کرتے تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے ان کے رہائشی علاقے کو ماسکو اور توبل سیک کے آس پاس بتلایا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ یاجوج و ماجوج کے شہر تبت اور چین سے بحرمنجمد شمالی تک اور مغرب میں ترکستان تک پھیلے ہوئے تھے۔
حضرت ذوالقرنین کے زمانے میں یاجوج و ماجوج کے حملے وبال جان بن گئے تھے، ان کی روک تھام کیلئے ذوالقرنین نے پہاڑوں کے مابین اونچی اور مضبوط سد (دیوار) تعمیر فرمائی۔ ذوالقرنین اور سدِ ذوالقرنین کا ذکر قرآن کریم کی سورة الکہف میں موجود ہے۔
جس ذوالقرنین کا قرآن میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت اور سدِ ذوالقرنین سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔ بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندرِ اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں مگر بعض اس کا انکار کرکے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر ذوالقرنین کو قدیم ایرانی بادشاہ سائرس اعظم (کورش اعظم)کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فروانی سے نوازا تھا۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ قرآن کریم کی سورة کہف میں بحوالہ یاجوج ماجوج ذوالقرنین کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب وہ اپنی شمالی مہم کے دوران سو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایسی قوم ملی جس کی زبان ناقابل فہم تھی تاہم جب ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد پھیلاتے ہیں لہٰذا تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد (دیوار) تعمیر کر دے۔ چنانچہ پھر یہ تفصیل ہے۔
کس طرح ذوالقرنین نے اُس قوم کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کیلئے دیوار بنائی اور جو دیوار بنائی گئی وہ کوئی خیالی اور معنوی نہیں بلکہ حقیقی اور حسی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی تھی جس سے وقتی طور پر یاجوج ماجوج کا فتنہ دب گیا۔ جب یہ دیوار تعمیر ہو گئی تو ذوالقرنین نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے اور جب میرے رب کے وعدے کا وقت قریب آئیگا تو وہ اس کو پیوندخاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ رہی یہ بات کہ سدِ ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟
تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہو چکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملوں سے بچائو کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور دیوارِ چین ہے جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے اور اب تک موجود ہے لیکن واضح رہے کہ دیوارِ چین لوہے اور تابنے سے بنی ہوئی نہیں ہے اور نہ وہ کسی چھوٹے کوہستانی درّے میں ہے ، وہ ایک عام مصالحے سے بنی ہوئی دیوار ہے۔ بعض کا اصرار ہے کہ یہ وہی دیوار ”مارب” ہے کہ جو یمن میں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ دیوارِ مارب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ہے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کیلئے اور پانی ذخیرہ کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔
ویسے بھی وہ لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیں ہے جبکہ علماء و محققین کی گواہی کے مطابق سرزمین ”قفقاز” میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ اس میں ایک دیوار کی طرح کا درّہ بھی موجود ہے جو مشہور درّہ ”داریال” ہے۔ یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوہے کی دیوار نظر آتی ہے، اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوارِ ذوالقرنین یہی ہے۔ اگرچہ سدِ ذوالقرنین بڑی مضبوط بنا ئی گئی ہے جس کے اوپر چڑھ کر یا اس میں سوراخ کرکے یاجوج ماجوج کا اِدھر آنا ممکن نہیں لیکن جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہے۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور نبی کریمﷺنے اس دیوار میں تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کیلئے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیات ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل اِن شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے یعنی انسانوں کو بھی کھانے سے گریز نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو طور کی طرف جمع کرلے کیونکہ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کسی کے بس میں نہ ہوگا۔
حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھی اس وقت ایسی جگہ کھڑے ہوں گے جہاں غذا کی سخت قلت ہوگی پھر لوگوں کی درخواست پر حضرت عیسیٰ یاجوج ماجوج کیلئے بددعا فرمائیں گے پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں اور کانوں میں کیڑا پیدا کر دے گا جو بعد میں پھوڑا بن جائے گاجس کے پھٹنے سے یہ ہلاک ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ سب سے سب مر جائیں گے ، ان کی لاشوں سے ایک بالشت زمین بھی خالی نہ ہوگی اور ہر طرف ان کی لاشوں کی گندی بو پھیل جائے گی ، پھر عیسیٰ ابن مریم دعا کریں گے تو اللہ جل و شانہ اونٹ کی گردن برابر پرندے بھیجیں گے جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جانے کہاں پھینک دینگے ، پھر ایک بارش ہوگی جس سے کل زمین صاف شفاف ہو جائے گی اور ہر طرف ہریالی و خوشحالی ہوگی۔
صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا، جس سے ان مفسرین کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ یا منگول ترک جن میں سے چنگیز بھی تھا یا روسی اور چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں، کیونکہ یاجوج و ماجوج کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں